اسلام میں بڑے مذاہب اور شاخیں.
[1]
|
|
مکے کی خلافت ایک نظریاتی جمہوریت تھی لیکن دمشق اور اس سے بھی پرے بغداد میں صورتحال مختلف تھی۔ شامی و فارسی نومسلم اور مخلوط النسل نوعربوں کے درمیان خالص النسل عرب مٹھی بھر ہورہے تھے۔ یہ افراد استبدادی ثقافت و عادات سے بھرے ہوئے تھے (The New World of Islam: Lothrop Stoddard) |
اس مضمون میں اسلام سے منسوب مختلف فرقوں اور فقہی مذاہب کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ تمام شاخیں صرف اللہ وحدہُ لا شریک کو معبود برحق قرآن کو آخری الہامی کتاب اور محمد رسول اللہ ﷺ کو آخری رسول مانتی ہیں جبکہ باقی حکام میں انکا اختلاف ہے۔ اس مضمون میں اسلام ازم (نظریہ کہ اسلام ایک سیاسی نظام ہے) کا خلاصہ نیز اسلام میں اجتہاد اور تفسیر کی بنا پر چلنے والی آزاد تحریکوں کا خلاصہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
فرقہ کا لفظ فرق سے بنا ہے جس کے معنی مختلف یا الگ کرنے یا تمیز کرنے کے ہوتے ہیں، مگر جب بات
مذہب کی ہو تو اس سے مراد اختلاف، قطع یا منحرف کی لی جاتی ہے یعنی کسی ایک مذہب میں اس کے ماننے والوں میں ایسے گروہ واقع ہونا کہ جن میں آپس میں متعدد یا چند امور یا ارکان یا خیالات میں (واقعتاً یا مجازاً) اختلاف پایا جاتا ہو اور وہ ایک دوسرے سے انحراف رکھتے ہوں، اس مذہب کے فرقے کہلاتے ہیں اور یہ عمل
فرقہ بندی کہلاتا ہے۔ فرقہ کی جمع ؛ فرقے یا فرقات کی جاتی ہے اور اس کی ضد، جمع (جماعۃ) کی جاتی ہے۔ مذہب اسلام کے ماننے والوں میں بھی متعدد
تاریخی و
سیاسی وجوہات کی باعث اپنے خیالات میں ایک دوسرے سے اختلافی یا افتراقی گروہ پائے جاتے ہیں ۔
[2] جن کی تعداد مختلف بتائی جاتی ہے لیکن ان میں اگر نہایت ہی چھوٹے چھوٹے (اور ایسے کہ جو قریباً معدومیت کا شکار ہو چکے ہیں) گروہوں کی فہرست کو الگ کر کہ دیکھا جائے تو باقی ایسے تفرقاتی گروہ (فرقے) جن کو موجودہ دور میں قابل ذکر سمجھا جاسکتا ہے وہ تعدادِ چند سے آگے نہیں جاتے جن میں
سنی (85 تا 90 فیصد)،
شیعہ،
سلفی اور
وہابی وغیرہ شامل کیے جاسکتے ہیں۔ فی الحقیقت، اسلام کا
معاشرے اور
سیاست سے مربوط ہونا اور پھر سیاسی ضروریات کو (قصداً یا لاشعوری طور پر) مذہب جیسی اہمیت دے دینا ہی فرقوں کی پیدائش کا ایک ابتدائییییی سبب بنا اور جس کی وجہ سے
فطرت سے افتراق کی ابتدا ہوئی ؛ قرآن میں فطرت پر قائم اسلامی اصولوں پر یکسو رہنے کے بارے میں
سورۃ یونس کی
آیت تیس میں درج ہے کہ :
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي (ترجمہ: سو سیدھا رکھو تم اپنا رخ دین اسلام کی سمت یکسو ہوکر۔ جو اللہ کا دین فطرت ہے)
[3] جب قرآن کی تعلیمات سے لاپروائی (دانستہ یا نادانستہ) کی گئی اور سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کی خاطر اسلام کے نام کو استعمال کیا جانے لگا تو پھر نئے نئے چھوٹے بڑے متعدد فرقے گو آئے دن نکلتے رہے۔ ایسا سب کچھ قرآن میں واضح طور منع کیے جانے کے باوجود کیا جاتا رہا؛ ترجمہ: اور مضبوطی سے تھام لو تم اللہ کی رسی کو سب مل کر اور فرقہ بندی نہ کرو۔ قرآن
سورۃ آل عمران، آیت 103۔
[3]
پیغمبر اسلام کی وفات[ترمیم]
610ء میں قرآن کی پہلی صدا کی بازگشت ایک صدی سے کم عرصے میں
بحر اوقیانوس سے
وسط ایشیا تک سنائی دینے لگی تھی اور
پیغمبرِ اسلام کی وفات (632ء) کے عین سو سال بعد ہی اسلام
732ء میں
فرانس کے شہر
تور کی حدود تک
پہنچ چکا تھا لیکن
تاریخ اسلام کا یہ تمام دور داخلی نفاق و انتشار سے عاری نا تھا۔ معاشرتی انصاف ابتدائیہ اسلام میں ایک اہم کردار رکھتا ہے اور اسی کی بدولت اسلام میں داخل ہونے والے افراد پر مشتمل آبادی نے ایک ایسی امت کی صورت اختیار کی جس کے معاشرے میں مساوات و رواداری اور ہر فرد کے حقوق پر انصاف پایا جاتا ہو۔ محمد کی وفات کے بعد ایک طرف تو
نفسیاتی طور امت مسلمہ میں الہامی یا وحی کی صورت میں ملنے والی براہ راست راہنمائی کا سلسلہ منقطع ہوا اور اس دوسری جانب
جغرافیائی لحاظ سے تیز رفتاری سے اپنی حدود میں اضافہ کرتی ہوئی امت کو نئے معاشرتی مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔
632ء تا
661ء تک کے دور کو کو عام طور پر (بشمول غیر مسلم مورخین)
خلافت راشدہ کا دور کہا جاتا ہے ؛
معاویہ کی بجائے
علی کی طرفداری کرنے والے اور چند ابتدائی مورخین کے مطابق، خلافت راشدہ کے بعد خلیفۂ پنجم
حسن کا قریباً چھـ ماہ پر محیط عہد شروع ہوا۔
پیغمبر اسلام کی جانشینی[ترمیم]
مسلم اور غیر مسلم مورخین کے بیان کردہ واقعات اور وجوہات و نظریات ؛ کہ مسلمانوں میں تفرقوں کی ابتدا کب سے ہوئی اور کیوں اور کیسے ہوئی ؛ ایک دوسرے سے ناصرف مختلف بلکہ بسا اوقات متضاد آتے ہیں لیکن چند ایسی کمیاب باتوں کہ جن پر کم و پیش تمام مورخ متفق نظر آتے ہیں میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں میں تفرقہ سازی کی ابتدا پیغمبر اسلام کی جانشینی پر شروع ہوئی
[4][5] گو کہ اس جانشینی وجہ کے باعث وجود میں آنے والے دو بڑے تفرقوں ؛
شیعہ اور
سنی کے علاوہ بھی پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد چند دیگر اختلافات نظر آتے ہیں جو خواہ جانشینی پر نا بھی ہوں تب بھی ان میں
سیاسی پہلو کی موجودگی سے انکار مشکل ہے۔ پیغمبر اسلام کی جانشینی سے اختلافِ امت کے آغاز کا یہ تذکرہ اس جگہ خالصتاً تاریخی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے جبکہ سنی اور شیعہ تفرقات کے علما میں مختلف افکار پائے جاتے ہیں اور اکثر سنی و شیعہ تفرقے کھل کر سامنے آنے کا زمانہ
عثمان کی شہادت سے بیان کیا جاتا ہے
[6]۔
[7]
ممکنہ شش و پنج[ترمیم]
ایسے مسائل یا سوالات جو رسول اللہ کی وفات کے فوراً بعد امت کو درپیش ہوئے اور ایک ہنگامی (باالفاظ بہتر ہیجانی)
شوری کے باوجود تاریخی حقائق و نتائج سے مسئلۂِ لاینحل کی مانند رہے، ان میں سے چند اہم درج ذیل بیان ہوتے ہیں
[8]۔
- کیا پیغمبر اسلام نے خود کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا؟ یا کیا کسی شخصیت کی جانب اشارہ کیا تھا؟
- کیا پیغمبر اسلام کا جانشین وراثتی بنیادوں پر ہونا چاہیے؟ یا سیاسی بنیادوں پر؟
- پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد قرآن کو بنیاد بنا کر منعقد ہونے والی ہنگامی شوری کی حیثیت کیا ہونی چاہیے؟
- اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون راہنما کے طور منتخب ہونے کا اہل ہے؟
- کیا روحانی وجاہت کو ترجیح دی جائے یا تجربہ کاری و اسلام کو درپیش جغرافیائی و سیاسی مقاصد کو؟
اولین تفرقہ[ترمیم]
عام طور پر
خوارج کو اسلام میں ظاہر ہونے والا سب سے پہلا تفرقہ کہا جاتا ہے لیکن تاریخی اعتبار سے ان کا ظہور کھل کر اس وقت سامنے آیا کہ جب
حضرت علی اور
امیر معاویہ کے مابین
جنگ صفین کو بلا کسی فیصلہ کن نتیجے کے ثالثی (تحکیم) پر ختم کیا گیا۔ حضرت علی کی فوج میں شامل کوئی بارہ ہزار افراد اس ثالثی سے اختلاف اور اسے اللہ کی حاکمیت سے انحراف قرار دے کر الگ (اجتماع سے خارج) ہو گئے، تاریخی طور پر ان ہی سے
خارجیوں کی ابتدا ہوئی، یہ
657ء کا واقعہ ہے جبکہ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ جانشینی پر اختلاف رائے رسول اللہ کی وفات (632ء) کے نزدیک زمانہ ہے
[4][5][6] یعنی شیعہ اور سنی تفرقوں کی ابتدا، خارجیوں سے قدیم آتی ہے۔ لفظ شیعہ پہلی بار کب استعمال ہوا؟ اس بارے میں، شیعہ (رسول اللہ کے دور سے
[9]۔
[10]) اور سنی (
جنگ جمل کے وقت سے
[11]) ؛ بیانات مختلف آتے ہیں۔
تاریخی واقعات کے تقدم کے لحاظ سے اولین تفرقے کا اندازہ مذکورہ بالا تاریخی واقعات کے تسلسل سے لگایا جاسکتا ہے لیکن نظریاتی طور پر متعدد علما
ذو الخویصرۃ التمیمی کے اس واقعے (جس میں اس نے رسول اللہ کو نعوذ باللہ، غیر عادل کہہ کہ نشست سے اخراج کیا تھا) کو خوارج کی ابتدا قرار دیتے ہیں
[12][13][14] مجموعی طور پر یہ تمام واقعات اسلام کی ابتدائی امت (اسلاف) کے ایک کامل ترین مثالی معاشرہ ہونے کے دعوے پر کیے جانے والے اعتراضات کے جواب کو مشکل بناتے ہیں؛ بطور خاص غیر مسلم مورخین و معترضین ان واقعات سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلام کا وہ ابتدائییییی دور جس کو ایک کامل مثالی، اعلٰی اور متحد عہد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اتنا مثالی متحد بھی ثابت نہیں ہوتا۔
[15]
اولین عہد[ترمیم]
تاریخی صفحات پر اسلام کے اولین عہد کے واقعات سے جو تاثر (بطور خاص غیر مسلم مورخین) کے یہاں نظر آتا ہے اسے بالائی قطعے میں بیان کیا گیا ہے اور اس پر مسلم علما عموماً تو یہ وضاحت رکھتے ہیں کہ بنیادی طور پر اولین عہد کے غیر معیاری واقعات (بلاواسطہ یا بالواسطہ)
منافقین کے باعث وقوع پزیر ہو رہے تھے یا پھر اس میں
بدعت کا عنصر شامل تھا۔ ان کے مطابق ؛ بدعت کا ماخذ
سنت سے عداوت یا اس کی غیرتوقیری میں ہے جو سنت کے کسی (یا متعدد) پہلو پر ذاتی خواہشات و مقاصد کی وجہ سے ہو سکتی ہے اور یہ بدعت، سنت پر قائم اجماع امت سے تفریق کا باعث بنتی ہے
[14]۔ ایک اور موقف مسلم کتب میں یہ بھی پایا جاتا ہے کہ بہرحال اولین عہد میں امت کی تشکیل قبل از اسلام کے مختلف پس منظر اور ثقافت یا رسم و رواج رکھنے والے افراد پر مشتمل تھی جن کو متحد کرنے کا سبب رسول اللہ کی الہامی تعلیمات بن رہی تھیں اور ان کے مابین ابتدائی طور پر نظریاتی اختلافات
سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعے کا سبب بنے، یہ موقف شیعہ کتب میں ملتا ہے
[9]۔
شیعہ سنی فسانہ بہ زبانِ زمانہ[ترمیم]
بالائی قطعہ بنام
پیغمبر اسلام کی جانشینی میں کیے گئے اندراجات سے مسلمانوں کی ابتدائی نسل میں رونما ہونے والے افتراقِ شیعہ و سنی کی متعدد وجوہات کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ ان وجوہات و اسبابِ تفرقات کے بعد اب اسلافی دور میں جاری ہونے والی اس شیعہ سنی کہانی کو ایک زمانی تواتر کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے تاکہ تاریخی خاکے کا ایک اندازہ قائم کیا جاسکے؛ اس کہانی میں طوالت سے اجتناب کی خاطر مذکورہ بالا قطعے کے مندرجات کو دہرانے سے گریز کیا جائے گا۔
صفر یا
ربیع الاول11ھ (
مئی یا
جون 632ء) کے بعد جب مسلمانوں میں کوئی متفقہ راہنما موجود نا رہا تو روحانی وجاہت و قربِ رسول کے باعث قابلِ تقلید، 34 سالہ
علی ابن ابی طالب اور اولین داخلینِ اسلام و والدِ
زوجۂ رسول، 59 سالہ
ابو بکر الصدیق منطقی انتخابات کے طور پر سامنے آئے اور
انصار کی ابتدائی مخالفت اور پھر موافقت کے بعد انتخاب، بعد الذکر کا ہوا جسے خارجی طور پر تو ناکام نہیں کہا جاسکتا لیکن داخلی طور پر متنازع ضرور ہوا۔ کیا یغمبر اسلام نے کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا یا نہیں؟ اس بارے میں سنی اور شیعہ تفرقے والے مختلف نظریات رکھتے ہیں جن کی تفصیل کے لیے
پیغمبر اسلام کی جانشینی مخصوص ہے۔
تین اسلافی اجتماعات[ترمیم]
مذکورہ بالا واقعات سے خلیفہ کی تقرری پر اسلاف میں تین اقسام کے تفکرات ظاہر ہوتے ہیں جن کو بعض مورخین تین الگ الگ گروہوں میں بھی شمار کرتے ہیں۔ حضرت
عمر کی مداخلت پر
سقیفہ میں ہونے والا انتخابِ
خلیفہ،
قریش و
مہاجرین کے لیے قابل قبول تھا لیکن اس موقع پر موجود دو الگ گروہ ؛ اول:
انصار (
سعد بن عبادہ کی قیادت میں) اور دوم: طرفداران حضرت
علی نے بعد میں اس اطاعت میں شراکت کی۔
[16] زبیر بن العوام اور
طلحہ بن عبید اللہ جنہیں
فاطمہ بنت محمد کے گھر سے نکالنے کے لیے حضرت
عمر کے آگ لگانے کا انتباہ بھی تاریخ میں ملتا ہے۔
[17] جو انہوں نے حضرت علی کے بغیر ہونے والے انتخابِ خلیفہ کے بعد ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے گھر سے مسجد لانے کے لیے دیا تھا؛ یہ بلاوہ کب دیا گیا؟ سقیفہ سے مسجد واپس آنے پر فوراً؟ یا محمد کی نماز جنازہ کے بعد اگلے روز؟ اس بارے میں روایات سے کوئی متفقہ شہادت نہیں ملتی
[18] کتب میں حضرت علی کو خلیفہ (ابوبکر) کے انتخاب تک نا بلانے کی وجہ انہیں رسول اللہ کے جنازے میں زحمت نا دینا بیان کی جاتی ہے جو اس موقع پر
اسامہ بن زید اور
فضل بن العباس کے ساتھ حضرت
عائشہ کے گھر میں رسول اللہ کے غسل و دیگر فرائض میں مصروف تھے
[19][20] اور اس ہنگامی انتخاب کی وجہ
مدینے میں انصار کی جانب سے سقیفہ کے اجتماع کی اطلاع ملنے پر ابوبکر، عمر اور
ابو عبیدہ (جو وہاں بعد میں پہنچے تھے
[21]) کی جانب سے کی جانے والی سرعت بیان کی جاتی ہے کہ انصار اپنا خلیفہ
قبیلہ بنو الخزرج کے سعد بن عبادہ کو بنانا چاہ رہے تھے جو زیادہ تر عربوں کے لیے متنازع ہونے کی کیوجہ سے امت کے شیرازے کو بکھیر سکتا تھا
[19]۔
عہدِ جانشینِ اول بہ نظر مورخین و علما[ترمیم]
بہ نظر مورخین: ابوبکر، رسول اللہ کے پہلے جانشین بنے جن کا عرصۂ خلافت گو طویل تو نا تھا لیکن چند سالوں بعد امت مسلمہ میں آنے والے طوفانوں کی نسبت خاموش نہیں تو متحد ضرور رہا۔ پہلے خلیفہ کو تمام امت کی حمایت حاصل ہوئی مگر ابتدائییییی طور پر کچھ انصار اور
فاطمہ بنت محمد و علی کی جانب سے رسول اللہ کے اہل خانہ نے خود کو اس بیت سے الگ رکھا
[18] ؛ ہم تک تاریخ سے یہ بات پہنچتی ہے کہ علی نے حضرت
فاطمہ کی وفات تک اس خلافت کو قبول نا کیا؛ اور اس مدت پر کہ جب حضرت علی کی یہ حمایت سامنے آئی تاریخدان مختلف بیانات درج کرتے ہیں؛ Michel Le Gall کی کتاب میں
المسعودی (
896ء تا
956ء) کی تاریخ
مروج الذھب و معادن الجواھر کے حوالے سے یہ مدت وفات فاطمہ سے دس روز بعد، تین ماہ بعد اور چھ ماہ بعد و دیگر
[22] اور بعد میں آنے والی بعض شیعہ کتب کے مطابق کبھی نہیں آتی
[18]۔ بعض مورخین سقیفہ کے اجلاس (اور حضرت علی کے رویے) کی بنیاد
حجۃ الوداع سے واپسی پر مقام
غدیر الخم (10 مارچ
632ء) سے منسلک کرتے ہیں
[23] اور وہاں رسول اللہ کی ایک حدیث بیان ہوتی ہے :
من كنت مولاه فهذا علي مولاه (ترجمہ: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں)۔ اس حدیث کی شیعہ اور سنی تشریحات بالکل مختلف ہیں اور سیاسی و قبائلی تعصب کو عیاں کرتی ہیں
[24]؛ شیعاؤں کے مطابق یہاں حضرت علی کی ولایت و خلافت (دینی و دنیاوی راہنما) کا اعلان ہوا جبکہ سنیوں کے مطابق اس خطاب کا سیاق و سباق حضرت علی پر چند الزامات کی صفائی پیش کرنا تھا؛ لفظ مولا یا مولی (جو ولی سے بنا ہے) کے عربی معنوں میں بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
ابن خلدون کی
مقدمہ ابن خلدون (
1377ء) میں آتا ہے۔
” | العباس (ابن عبد المطلب) نے علی کو اپنے ساتھ رسول اللہ کے پاس چلنے اور ان کی جانشینی کے بارے میں اپنا مقام دریافت کرنے کی دعوت دی لیکن حضرت علی نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر وہ ہمیں (خلافت سے) الگ رکھتے ہیں تو ہمیں اسے حاصل کرنے کی کبھی امید نہیں لگانا چاہیے [25]۔ | “ |
کم از کم اس اقتباس پر (کتاب کے مصنف کا) موقف یہ ہے کہ اس (بیان) سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی جانتے تھے کہ رسول اللہ نے نا تو کسی (جانشین کے انتخاب کا) حکم دیا اور نا ہی کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ مذکورہ بالا کتاب میں اس واقعے کا زمانہ نہیں ملتا اور اسی طرح متعدد قدیم ترین تاریخی کتب کے بیانات سے بھی کوئی بات حتمی طور پر کہنا مشکل ہو جاتا ہے؛ اس قسم کی دقت کا اندازہ خود
طبری میں آنے والے ایک جملے سے ہو جاتا ہے جس کے مطابق وہ کسی بھی واقعے بعد لکھتا ہے کہ ؛ یہ (یعنی جو درج کیا) وہ ہے جو ہمیں مستند معلوم ہوا۔
بہ نظر سنی علما: سنی علما
صحیح بخاری اور
صحیح مسلم جیسی کتب احادیث کی بنیاد پر یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ
ابوبکر،
عمر،
عثمان اور
علی جیسے جلیل القدر اصحاب اکرام سے کسی لغزش کا احتمال بھی عقل سے بالا ہے اور حضرت علی نے رسول اللہ کی جانب سے ابوبکر کو نماز میں امامت کے لیے مقرر کرنے کا حوالہ دے کر اگلے ہی روز تمام افراد کے ساتھ (بعض کے مطابق چالیس روز بعد) بیت کر لی تھی اس کے بعد حضرت
فاطمہ کی علالت کے باعث گھر سے نکلنا کم ہو گیا تھا ساتھ ہی وراثت (
فدک وغیرہ) کی حوالگی کے موضوع کی وجہ سے بھی شبہات آ گئے تھے؛ وراثت کے بارے میں حضرت ابوبکر نے رسول اللہ کی حدیث کا ذکر کیا کہ؛ حدیث : ہماری جائداد موروثی نہیں ہے اور جو کچھ ہم چھوڑیں وہ خیرات (صدقہ) ہے البتہ (فتوی کے اندراج کے مطابق) حضرت ابوبکر نے کہا کے اس وراثت سے رسول اللہ کے
اہل خانہ کی کفالت کا حصہ ادا کیا جاسکتا ہے، جسے حضرت علی نے تسلیم کر لیا اور اس وجہ سے انہوں نے حضرت
فاطمہ کی وفات کے بعد جو بیت کی وہ ان شبہات کو دور کرنے کی خاطر دوسری مرتبہ کی گئی (تفصیل کے لیے دیکھیے islamweb اور فتوی اسلام پر فتاویٰ ۔
[26][27]
بہ نظر شیعہ علما: شیعہ علما کے موقف کے مطابق
حدیث خم سے حضرت علی کی نامزدگی ظاہر ہوتی ہے اور حضرت ابوبکر نے متعدد عوامل بشمول 1- نبوت اور خلافت دونوں کا
بنو ھاشم میں چلے جانا 2- حضرت علی کا کم عمر ہونا 3- عربوں (بطور خاص
قریش) کی حضرت علی سے عداوت 4- حضرت علی کے خلیفہ نامزد ہونے کی صورت میں حق گوئی اور صاف بیانی سے خلافت کرنے کا خطرہ شامل ہیں ؛ اور ان کے مطابق حضرت علی کو بیت پر مجبور کیا گیا اور حضرت فاطمہ نے اس کی مخالفت میں حصہ لیا ۔
[28] اس قسم کی صورت حال پیدا ہونے کی ایک نفسیاتی وجہ رسول اللہ سے محبت بھی ہے کہ
اہل بیت کو ان کے والد کی وراثت سے کفالت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر پر لازم آتی ہے ۔
[29] (جس کے بارے میں سنی علما اپنا الگ موقف بیان کرتے ہیں جو مذکورہ بالا فتاویٰ میں دیکھا جاسکتا ہے)۔ ان کے مطابق حضرت ابوبکر نے حضرت علی کے بیت سے انکار کے بعد حضرت فاطمہ کی حیات تک اس بیت پر زور نہیں دیا؛ یعنی حضرت علی نے بیت کی بھی تو حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد
[30]
مختلف فرقے[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے
اہلسنت ملاحظہ کریں۔
مسلمانوں میں سنی عقیدہ کے لوگ سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں اور اہلسنت و الجماعت یا صرف اہلسنت کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ لفظ سنی سنت سے نکلا ہے جو حضرت محمد مصطفٰیﷺ کے تعلیم کردہ طریقوں کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے سنی کی اصطلاح اُن لوگوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو پیغمبر پاک محمدﷺ کے طریقوں کی پیروی کرتے ہوئے انہیں اپنی زندگیوں میں زندہ رکھتے ہیں۔ بہت سے ممالک میں مسلمانوں کی غالب اکثریت سنی ہے اس لیے وہ اپنے لیے سنی کے سرنامہ کی بجائے مسلمان کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں۔
اہلسنت کا عقیدہ ہے کہ محمدﷺ نے اپنی وفات سے پہلے کسی بھی شخص کو بطور خاص اپنا جانشیں مقرر نہیں کیا تھا نیز آپﷺ کی وفات کی پریشانی کے ابتدائی دور کے بعد آپﷺ کے معروف صحابہ کا ایک گروہ اکٹھا ہوا اور محمدﷺ کے قریبی دوست اور سسر عبد اللہ المعروف ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہُ کو بطور خلیفہ اسلام اول منتخب کر لیا۔ اہلسنت پہلے چار خلفاء حضرات یعنی ابو بکر، عمر بن الخطاب،
عثمان بن عفان اور علی بن
ابو طالب رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بطور خلفاء راشدین یعنی ہدایت یافتہ خلفاء محترم مانتے ہیں۔ سنی یقین رکھتے ہیں کہ خلافت کا منصب جمہوری طریقے پر زیادہ حمایت کے ذریعے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن خلفاء راشدین کے بعد خلافت بنو امیہ اور کچھ دوسرے گروہوں کی طرف سے پیدا کردہ انتشار کے باعث موروثی بادشاہت میں تبدیل ہو گئی۔ 1923ء میں خلافت عثمانی کے خاتمے کے بعد دنیائے اسلام کا کوئی واحد خلیفہ نہیں ہو سکا اور مسلمان مختلف جغرافیائی خطوں کی بنیاد پر تقسیم ہو گئے۔
اہلسنت کے فقہی مذاہب[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے
مذہب ملاحظہ کریں۔
مذہب ایک اسلامی اصطلاح ہے جو اہلسنت کے نزدیک مذہبی معاملات میں کچھ خاص قوانین کے تحت قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل کا حل تلاش کرنے والوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ صحابہ میں سے کچھ فقیہ صحابہ کے انفرادی مذاہب تھے، پھر یہ مذاہب بتدریج چار مسلم فقہی مذاہب میں منظم ہو گئے۔ ان مذاہب کے فلسفہ میں اختلاف کے باعث عملی عبادات میں بھی کچھ تنوع نظر آتا ہے۔ سنی مسلمان عموماً اپنی شناخت کسی خاص مذہب کے حوالے سے کروانے کی بجائے مسلمان یا سنی کے طور پر کرواتے ہیں باوجود اس کے کہ کچھ علاقوں کی آبادی اکثر قصداً یا بلا قصد دوسرے مذاہب کے پیروؤں کا احترام کرتے ہوئے کسی خاص مذہبی نظریات کی پیروی کرتی ہے۔
تفصیلی مضمون کے لیے
حنفی ملاحظہ کریں۔
نعمان بن ثابت المعروف حضرت امام ابو حنیفہؒ مذہب حنفی کے بانی تھے۔ مشرقی بحر روم، وسطی ایشیا، افغانستان، پاکستان، ہندوستان، بنگال، جنوب مغربی مصر، عراق، ترکی،
جزیرہ نما بلقان اور روس کے زیادہ تر مسلمان اس مذہب کے پیروکار ہیں۔ مشرقی ایشیا اور ہندوستان کے زیادہ تر حصوں میں بریلوی، دیوبندی اور
تبلیغی جماعت کے نام سے مشہور تحریکیں تحریکوں کے لوگ بھی اسی مذہب کے پیرو ہیں۔
تفصیلی مضمون کے لیے
مالکی ملاحظہ کریں۔
مالک بن انسؒ مالکی مذہب کے بانی تھے۔ شمالی و
مغربی افریقہ،
متحدہ عرب امارات، کویت، بالائی مصر اور
سعودی عرب کے زیادہ تر مسلمان اس مذہب کے پیروکار ہیں۔ عالمی تحریک مربطون تحریک کے لوگ بھی اس مذہب کے پیرو ہیں۔ ماضی میں یورپ پر اسلامی حکومت کے دور میں بالخصوص ہسپانیہ، امارات سسلی میں بھی اس مذہب کی پیروی کی جاتی تھی۔
تفصیلی مضمون کے لیے
شافعی ملاحظہ کریں۔
محمد بن ادریس شافعیؒ اس مذہب کے بانی تھے۔ سعودی عرب، زیریں مصر، انڈونیشیا، اردن، فلسطین، فلپائین، سنگاپور، صومالیہ،
تھائی لینڈ، یمن، کردستان کے مسلمان، کیرالہ کے موفلا اور بھارت کے کوکانی مسلمان اس مذہب کے پیرو ہیں۔ برونائی دارالسلام اور ملائیشیا کا یہ سرکاری مذہب ہے۔
تفصیلی مضمون کے لیے
حنبلی ملاحظہ کریں۔
احمد بن حنبلؒ اس مذہب کے بانی تھے۔ قطر، عراق اور شام کے کچھ جبکہ سعودی عرب کے زیادہ تر مسلمان اس مذہب کے پیرو ہیں۔ تحریک سلفی کے زیادہ تر لوگ خود کو اس کا پیرو کہتے ہیں۔
تفصیلی مضمون کے لیے
ظاہری ملاحظہ کریں۔
داؤد الظاہریؒ اس مذہب کے بانی تھے۔ مراکش اور پاکستان میں مسلمانوں کی اقلیت اس کی پیرو ہے۔ ماضی میں میسوپوٹامیہ، پرتگال،
جزائر بلیبار،
شمالی افریقہ اور ہسپانیہ کے کچھ حصوں میں مسلمانوں کی اکثریت اس کی پیرو رہی ہے۔
سلفی تحریک[ترمیم]
تفصیلی مضمون کے لیے
سلفی ملاحظہ کریں۔
سلفی تحریک کے پیروکار قرآن و سنت اور احادیث کی ظاہری لغوی تفسیر پر عمل کرتے ہیں۔ سلفی خود کو اہلسنت ہی کہتے ہیں۔ اس کے پیروکار سلفی، اثری، اہل حدیث، اہل الاثر اور کئی دوسرے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔ یہ گروہ قرآن اور سنت کی صحابہ کرام کے طریقہ کے مطابق حقیقی فہم اور پیروی کا دعویدار ہے۔ سلفی حضرات اسلام کے بنیادی اصولوں کے فہم کے سلسلے میں مسلمانوں کے پہلے تین ادوار یعنی صحابہ، تابعین اور
تبع تابعین اور ان کے شاگردوں کو پیروی کے لیے حجت تسلیم کرتے ہیں اور اسی کو اسلاف کا طریقہ کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ عقائد اور فقہ کے معاملے میں اثری شاخ کے پیروکار ہیں جیسا کہ محمد بن صالح العثيمين نے ایک مرتبہ اس امر کی اس طرح وضاحت کی کہ عوام المسلمین کے لیے پیروی کا سب سے واضح راستہ یہ ہے کہ وہ ایک مقامی
عالم دین کی پیروی کریں۔ البتہ وہ مسلمان جو علم فقہ پر دسترس حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ کسی خاص مذہب کے عالم سے علم سیکھیں اور اس فقہ کا مکمل طور پر مطالعہ کریں۔
تفصیلی مضمون کے لیے
وہابی ملاحظہ کریں۔
یہ تحریک حال ہی میں اٹھارہویں صدی عیسوی کے عالم دین شیخ محمد بن عبد الوہاب کی طرف سے
جزیرہ نما عرب میں شروع کی گئی اور یہی تحریک
آل سعود کو اقتدار میں لانے کا باعث بنی۔ سلفیت سعودی عرب میں ایک کٹر اسلامی اور قانون پرست تحریک اور اسلام کی ایک معروف شاخ ہے۔ اگرچہ لفظ وہابی محمد بن عبد الوہاب کے پیروکاروں کے لیے بولا جاتا ہے جو سلفی اسلام کی ہی ایک رجعت پسند شاخ ہیں، تاہم وہابیت اور سلفیت کی اصطلاحات عموماً متبادل کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
وہابی قرآن اور حدیث کے علاوہ قدیم علما میں ابن تیمیہ،
ابن قیم اور اس کے ساتھ محمد بن عبد الوہاب کی تصانیف کو مذہبی راہنمائی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سلفیت عموماً
صوفی ازم(اسلام کا روحانی پہلو) اور
اہل سنت سے باہر کے تمام فرقوں کی مخالفت کرتی ہیں ؛ اور ان فرقوں کو منحرف مانتی ہے۔ وہابی اپنے کردار کو تحریکِ تجدیدِ اسلام کے طور پر دیکھتے ہیں جو بدعات، خرافات، انحرافات اور
بت پرستی کی تمام اقسام سے پاک ہے۔
یہ منہج جن ملکوں میں خصوصاً غالب ہے، ان میں سعودی عرب اور جزیرۃ العرف کی دوسری ریاستیں شامل ہیں۔ اس مذہب کے پیروکاروں کی اقلیت برصغیر (اہل الحدیث)، مصر اور تمام
عالم اسلام میں پائی جاتی ہے۔ سلفی حضرات اہلسنت کی اکثریت پر انبیا اور اولیاء کرام سے توسل کرنے کی وجہ سے شرک کا الزام لگاتے ہیں .
اہل الحدیث[ترمیم]
اہل الحدیث ایک سنی اسلامی تحریک ہے جو انیسویں صدی کے وسط میں شمالی ہندوستان میں شروع ہوئی۔ اس تحریک کا مرکزی عقیدہ یہ تھا کہ تقلید واجب نہیں ہے جیسا کہ اہل الرائے کہتے ہیں۔ اس کے متبادل کے طور پر ان کی نظر میں صحیح حدیث اور قرآن سے بلا واسطہ راہنمائی حاصل کرنا مسلمان کے لیے بہتر ہے۔ اس تحریک کے پیروکار خود کو اہل الحدیث یا سلفی کہتے ہیں۔ اہل الحدیث اور وہابی کی اصطلاحات عموماً متبادل کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں یا بسا اوقات اہل الحدیث کو
وہابی تحریک کی ہی ایک شاخ سمجھا جاتا ہے جبکہ اہل الحدیث خود کو وہابیت سے الگ بتاتے ہیں۔
سیاسی تحریکیں[ترمیم]
الاخوان المسلمین[ترمیم]
اخوان المسلمین ایک تنظیم ہے جس کی بنیاد دار العلوم مصر کے مستند عالم
حسن البنا نے رکھی۔ عرب دنیا میں یہ سب سے بڑی سنی تحریک ہے جس سے وابستہ لوگ زیادہ تر اقوام عرب میں
حزب اختلاف سے تعلق رکھتے ہیں نیز اس کی کئی شاخیں ہیں۔ الاخوان المسلمین مذہبی اختلافات سے دور ہے اور چاروں سنی مذاہب کے لوگ اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا اسلامی گروہ ہے۔ اس کا مقصد خلافت کی بحالی اور اس دوران معاشرے کو اسلامی اقدار کی طرف زیادہ سے راغب کرنا ہے۔ الاخوان کا مقصد "قرآن اور سنت کو مسلمان فرد، خاندان اور معاشرہ کی زندگی کے احکامات لیے واحد حوالہ کے طور پر اختیار کرنا" ہے۔
جماعت اسلامی[ترمیم]
جماعت اسلامی برصغیر کی سیاسی اسلامی جماعت ہے۔ برصغیر پر برطانوی دور حکومت کے دوران لاہور میں سید ابو الاعلٰی مودودی نے 1941ء میں اس کی بنیاد رکھی اور اب یہ پاکستان اور بھارت کی سب سے قدیم مذہبی جماعت ہے۔ آج کل اس جماعت کے مقاصد اور نظریات کے ساتھ مختلف ساتھی جماعتیں جنوبی ایشیا کے مختلف ممالک میں موجود ہیں جیسا کہ جماعت اسلامی ہند، جماعت اسلامی بنگلہ دیش، جماعت اسلامی کشمیر، افغانستان اور
سری لنکا نیز ان جماعتوں کے اخوت اسلامی سے متعلق مختلف ممالک کی دوسری سیاسی جماعتوں مثلاً
اخوان المسلمین وغیرہ سے قریبی برادرانہ تعلقات ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان،
بنگلہ دیش اور افغانستان میں ایک اسلامی حکومت چاہتی ہے جو ملک کو اسلامی قوانین کے مطابق چلائے۔ یہ مغربیت اور مغربی نظاموں بشمول سرمایہ داری، اشتراکیت اور اس سے ملتے جلتے نظام جیسا کہ بنکوں کا سودی نظام وغیرہ کے خلاف ہے اور اسلامی معاشی نظام اور خلافت کی حامی ہے۔
جماعت المسلمین[ترمیم]
جماعت المسلمین ایک سنی اسلامی تحریک ہے جو امام سید مسعود احمد نے 1960ء کے عشرے میں شروع کی۔ محمد اشتیاق اس تحریک کے موجودہ قائد ہیں۔
خارجیت (نکل جانے والے) ایک عمومی اصطلاح ہے جو اسلام سے متعلق اس گروہ کے لیے استعمال کی گئی جو حضرت علی رضی اللہ عنہُ کی خلافت کے آغاز میں ان کے ساتھ تھا اور بعد میں ان کے خلاف لڑا یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہُ کو کوفہ کی مسجد میں نماز کے دوران شہید کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اگرچہ خارجیت کے صرف چند گروہ ہی باقی رہ گئے ہیں تاہم یہ اصطلاح ان مسلمانوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو اپنے مخالف عقائد رکھنے والے گروہوں سے مفاہمت کا انکار کرتے ہوئے ان کے خون کو حلال قرار دیتے ہیں۔
آج کل خارجیوں کا سب سے بڑا فرقہ اباضیہ ہے۔ یہ فرقہ خارجیت کے فرقہ سے ساتویں صدی میں پیدا ہوا تاہم اباضی خود کو خارجیوں سے الگ کہتے ہیں۔ یہ سب سے پرانا مذہب کہا جاتا ہے جو حضرت محمد ﷺ کی وفات کے بعد صرف پچاس سال کے عرصے کے دوران پیدا ہو گیا۔ اس مذہب کے پیرو عمان میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں اباضیہ کے پیروکار اقلیت میں شمال مشرقی افریقی ممالک میں بھی پائے جاتے ہیں۔ قرون وسطیٰ کے آغاز میں الجیریا کے سلاطین رستمان بھی اباضی تھے۔
آج کل اسرائیلی مسلمانوں کا ایک اقلیتی لیکن بڑھتا ہوا ذیلی خارجی گروہ ہے جو قرائیمی یہودیوں کی ایک شاخ ہے۔ یہ خارجیوں کا اسرائیلی فرقہ ہے جو عیساویہ کے نام سے معروف ہے ؛ یہ نام ان کی امیر ابو عیسیٰ اصفہانی سے عقیدت کے باعث رکھا گیا۔
ساتویں صدی کے آخر میں ابو عیسیٰ نے پہلا یہودی اسلامی تربیتی ادارہ کھولا۔ یہ ادارہ اصفہان میں واقع ہے اور اس نے اسرائیلی بچوں کا پیغمبرِ پاک محمدﷺ کے تعلق سے کردار کا تعین کیا۔
معدوم خارجی گروہ[ترمیم]
ساتویں اور آٹھویں صدی میں مسلمانوں میں سفرین کے نام سے ایک فرقہ موجود تھا جو خارجیوں کا حصہ تھا۔ ان کے عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ تھا کہ قرآن مجید کی سورۃ یوسف معتبر نہیں ہے۔
حروریۃ
چوتھے خلیفہ راشد کے دور میں مسلمانوں میں ایک گروہ حروریۃ کے نام سے تھا۔ یہ نام ان کے پہلے رہبر حبیب بن یزید الحروری کی وجہ سے دیا گیا۔
متفرق
اس کے علاوہ خوارج میں ازرقی، نجدی اور نکاری ہیں جو اب معدوم ہو چکے ہیں۔
شیعہ اسلام میں مسلمانوں کا دوسرا بڑا فرقہ ہے۔ دنیا میں دس سے بیس فیصد مسلمان اس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اہل تشیع اگرچہ دنیائے اسلام میں ایک اقلیت ہیں، تاہم آزر بائیجان، بحرین، عراق اور ایران اور اسی طرح لبنان میں ان کی اکثریت ہے۔
قرآن و حدیث کو معتبر اور حضرت محمدﷺ کو آخری رسول ماننے کے علاوہ اہل تشیع اس بات کے بھی قائل ہیں کہ اہل بیت رسول اور ائمہ(اہل بیت کی حقیقی اولاد ) کو معاشرے پر ایک خاص روحانی اور سیاسی اقتدار حاصل ہے۔ ان کے عقیدہ کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہُ جو محمدﷺ کے چچا زاد بھائی اور داماد بھی ہیں ؛ پہلے امام اور خلیفہ راشد ہیں۔ اس طرح وہ پہلے تین خلفاء راشدین کی خلافت کے جواز کو مسترد کرتے ہیں۔
شیعہ ایک بہت بڑا گروہ ہے جس کے بہت سے
ذیلی گروہ ہیں۔ اہل تشیع میں بہت سے مذاہب، فقہ، فلسفے اور روحانی سلسلے ہیں۔ اہل تشیع حضرت محمدﷺ کے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہُ کی شہادت کے فوراً بعد منظر عام پر آئے نیز دوسری صدی میں شیعہ کے عقائد وضع ہوئے اور نویں صدی کے آخر میں شیعوں کی پہلی حکومت اور انجمنیں بنیں۔
اہل تشیع کی اہم آبادیاں
مغربی سماٹرا کے ساحلی علاقوں اور انڈونیشیا میں آچے (دیکھیے تائبوک) کے علاقے میں پائی جاتی ہیں۔ جنوب مشرقی ایشیا کے علاوہ باقی علاقوں خصوصاً شافعی سنی مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں اہل تشیع بہت قلیل تعداد میں ہیں۔
نائجیریا میں خدونا کی ریاست کے وسط میں ایک اہل تشیع کی اہم اقلیت موجود ہے(دیکھیے نائجیریا میں اہل تشیع)۔
مشرقی افریقہ میں اسماعیلی شیعوں کی بہت سی آبادیاں ہیں جو بنیادی طور پر نو آبادیاتی دور میں جنوبی ایشیا سے ہجرت کرنے والے لوگوں جیسا کہ خوجوں کے لوگوں کی اولادیں ہیں۔
شیعہ مسلمانوں کے مطابق ان کی آبادی کی تعداد کا تخمینہ لگانے میں وجہ تاخیر یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں اہل تشیع ایک اہم اقلیت کے طور پر ہیں جبکہ ملک کی پوری آبادی کو بطور سنی لکھ دیا جاتا ہے جبکہ اس کا برعکس درست نہیں ہے اور اس وجہ سے ہر فرقے کی تعداد کا اندازہ درست نہیں لگایا جا سکتا۔ مثال کے طور پر 1926 میں آل سعود کا عرب میں اقتدار نے شیعوں کے معاملہ میں سرکاری سطح پر امتیاز کو اپنایا۔ اسی طرح صفویین حکمرانوں کے دور میں سنیوں کو زبردستی شیعہ بنانے کے بعد ایران میں سنی مخالف جذبات اور کارروائیاں رہی ہیں جہاں اکثر ان کو عبادت کرنے یا مساجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
شیعہ میں فقہ کی شاخیں[ترمیم]
شیعہ اسلام تین شاخوں میں منقسم ہے۔ ان میں سب سے بڑی اور معروف شاخ اثنا عشری ہے جسے یہ نام ان کے بارہ ائمہ سے وفاداری کی بنا پر دیا جاتا ہے۔ ان کی آبادی ایران، آزر بائیجان، بحرین اور عراق میں اکثریت میں ہیں۔ دوسری چھوٹی شاخوں میں اسماعیلی اور زیدیہ شامل ہیں جن کا بارہ ائمہ کے سلسلے اور عقائد میں اختلاف ہے۔
اثنا عشری شیعہ کی اکثریت ایران میں 90٪، آزربائیجان میں 85٪، بحرین میں 70٪، عراق میں 65٪، لبنان میں 40٪، کویت میں 25٪، البانیہ میں 20٪، پاکستان میں 25٪ اور افغانستان میں 20٪ ہے۔
زیدیہ کا اثنا عشری سے پانچویں امام میں اختلاف ہے۔ یہ امام
محمد باقر کی بجائے
زید ابن علی کو پانچواں امام مانتے ہیں کیونکہ امام محمد باقر نے بد عنوان حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا تھا۔ وہ عمومی سلسلہ امامت میں یقین نہیں رکھتے بلکہ ان کے نزدیک
حسن ابن علی یا
حسین ابن علی کی اولاد میں سے امام وہ ہے بد عنوان حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرے۔ زیدیہ کی اکثریت یمن میں رہتی ہے۔
اسماعیلی کا اثنا عشری سے ساتویں امام میں اختلاف ہے۔ یہ موسیٰ کاظم کی بجائے ان کے بڑے بھائی اسماعیل بن جعفر کو ان کے والد جعفر صادق کا جانشین مانتے ہیں۔ اثنا عشری کے عقیدہ کے برعکس وہ اسماعیل بن جعفر کی شہادت کو نہیں مانتے۔ اسماعیلی اقلیت میں افغانستان، پاکستان، ازبکستان، تاجکستان، ہندوستان، مصر، برطانیہ، کینیڈا، یوگینڈا، پرتگال، یمن، چین، بنگال اور سعودی عرب میں پائے جاتے ہیں اور ان کی بہت سی ذیلی شاخیں ہیں۔
اہل تشیع کی شاخیں ایک نظر میں
اثنا عشری[ترمیم]
اثنا عشری بارہ اماموں کو مانتے ہیں۔ مانا جاتا ہے کہ بارہویں امام محجوب ہیں اور قیامت کے قریب دوبارہ ظاہر ہوں گے۔ شیعہ کی احادیث اماموں کے اقوال پر مشتمل ہیں۔ بہت سے سنی مسلمان اہل تشیع کو ان کے کچھ عقائد اور اعمال بشمول محرم کے ماتم کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اثنا عشری اہل تشیع کا 93٪ ہونے کے باعث سب سے بڑا گروہ ہیں ؛ ازربائیجان، ایران، عراق، لبنان اور بحرین کے علاقوں میں اکثریت میں ہونے کے علاوہ یہ پاکستان، ہندوستان، افغانستان، کویت اور سعودی عرب کے مشرقی صوب میں معقول تعداد میں آباد ہیں۔ اثنا عشری فقہ میں جعفری یا باطنیہ مذہب کی پیروی کرتے ہیں۔
فقہ جعفریہ[ترمیم]
فقہ جعفریہ کے پیروکار مندرجہ ذیل ذیلی گروہوں میں تقسیم ہیں اگرچہ یہ الگ فرقے نہیں سمجھے جاتے۔
- اصولی - اصولی اثنا عشری میں غالب اکثریت میں ہیں۔ وہ تقلید اور فقہ یں ممرجع تقلید کی پیروی کرتے ہیں۔ یہ ایران، پاکستان، آزر بائیجان، ہندوستان، عراق اور لبنان میں بڑی تعداد میں ہیں۔
- اخباری - اصولیوں کی طرح اخباری بھی حدیث کے مقابل اجتہاد کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ بحرین میں اکثریت میں ہیں۔
- شیخیہ - شیخیہ ایک مذہبی اسلامی تحریک ہے جو شیخ احمد نے انیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں قاجاریہ اور ایران میں شروع کی؛ اب اس کے پیروکار ایران اور عراق میں بھی اقلیت میں ہیں۔ یہ صوفی، شیعہ اور اخباری شاخوں کے مجموعہ سے شروع ہوئی۔ انیسویں صدی کے وسط میں بہت سے شیخیہ نے اپنا مذہب تدیل کر کے ببابیہ اور بہائیہ مذاہب کو اختیار کر لیا جو شیخ احمد کا بیحد احترام کرتے ہیں۔
دوسری جانب باطنیہ مذہب کے پیروکاروں میں علویہ اور نصاریہ ہیں جنہوں نے اپنا فقہی نظام بنایا ہے اور فقہ جعفریہ کی پیروی نہیں کرتے۔
علویہ (الکاسبی، ابن نصر اور علویہ)[ترمیم]
علوی - علویہ کے علاوہ یہ نصاریہ، نماریہ اور انصاریہ کے ناموں سے بھی معروف ہیں۔ اس مذہب کی بنیاد ابن نصر نے رکھی اور اس کے عقائد الکاسبی نے ظاہر کیے۔ یہ میمن بن ابو القاسم سلیمان بن احمد بن الطبرانی کے عقائد سلیہ اورعلویہ کے فقہ کی پیروی کرتے ہیں۔ دس لاکھ سے کچھ زائد علویہ مصر اور لبنان میں رہائش پزیر ہیں۔
علویہ (قزلباش اور علویہ)[ترمیم]
علویہ کو کبھی اثنا عشری شیعہ کے جز اور کبھی ان کی ذاتی مذہبی روایت پر تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ ان کے فلسفہ، روایات اور عبادات بہت مختلف ہیں۔ ان میں بہت سی صوفیانہ خصوصیات ہیں ؛ قرآن اور بارہ ائمہ میں اپنا اعتقاد بیان کرتے ہیں لیکن ترکی شمانیہ کی طرح تعدد ازدواج کی نفی اور اسلام سے پہلے جاری متعہ کی اباحت کے قائل ہیں۔ ان کی زیادہ تعداد مشرقی وسطی ترکی میں ہے۔ کئی مرتبہ انکو صوفی مذاہب میں سے بھی سمجھا جاتا ہے اور انکا مذہبی امارت کا طریقہ غیر روائیتی ہے جو دوسرے سنی اورشیعہ گروہوں کی طرح علمیت پر مبنی نہیں ہے۔ دنیا میں ان کی آبادی تقریباً چوبیس (24) ملین ہے جس میں سے سترہ ملین ترکی میں جبکہ باقی بلقانیہ، البانیہ، آزربائیجان، ایران اور مصر میں ہیں۔
مزید دیکھیے[ترمیم]
حوالہ جات[ترمیم]